تحریر :- نوید بروہی
قسط نمبر ٣
" وہ اذان مغرب"
دوری ایک عذاب ہے جسے کبھی بھی کوئی بھی انسان خودبخود نہیں چنتا۔ یہ براستہِ لکیرانِ قسمت آ ملتی ہے ۔
ان دوریوں میں سب سے غضبناک اپنوں سے دوری ہے ۔ ماں باپ سے دوری بہن بھائیوں سے دوری رشتہ داروں سے دوری یعنی اپنوں سے دوری ہے ۔اس درد کو دل سے تب محسوس کرتا جب مغرب کے وقت مسجد کے صحن میں دوران اذانِ مغرب معصوم چہروں پر افسردگی و اداسی اور آنکھوں سے رواں اشکوں کی برسات دیکھتا ۔کوئی کشمیر کوئی پنجاب، کوئی کے پی کوئی گلگت تو کوئی بلوچستان کے دور دراز پہاڑی علاقوں سے رخت سفر باندھ کر علم کی پیاس بجھانے اپنے گھروں سے ہزاروں میل طے کر کے یہاں پہنچے تھے ! میں تو ایک دن امی جان سے باتیں نہ کرو، ایک دن بابا کو مسکراتے نہ دیکھو تو اداسیاں چھا جاتی ہیں ہے ۔ یہ تو وہ ہیں جو اس عمر میں سال بھر گھروں کو ترستے ہیں ۔ کبھی اذان مغرب تو کبھی اذان فجر کے وقت کسی کونے میں بیٹھ کر رو رہے ہوتے ہیں !
کیسے ماں باپ ہیں ؟ کیسے برداشت کرلیتے ہیں ؟ خود سے ہی سوال کرتا !
آہ ! مغرب کے وقت ڈوبتے سورج کے ساتھ یوں لگتا دل ہی ڈوب رہا ہو! جس دن کوئی خوش الحان موذن اذان دیتا تو یوں لگتا کہ مسجد کی دیواروں سے لپٹ کر اپنا درد سنا رہے ہیں ! یہ معصوم عمر اور یہ لمبی جدائی ! کبھی کبھار ان کا رلانا مجھے بھی رلا دیتا تھا۔آج بھی سوچتا ہوں علم کیلئے یہ عظیم قربانی ، ماں باپ ، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں سے برسوں کی دوری کسی قربانی سے کم نہیں ! پس غروب آفتاب کا وہ منظر آج بھی مجھے یاد ہے۔
No comments:
Post a Comment